جنید جمشید تاریخ کا حصہ بن گئے، کہنے میں یہ بات جتنی آسان لگ رہی ہے، اِس
کا تصور کرنا اتنا ہی مشکل ثابت ہورہا ہے۔ اگر مبالغہ نہ کیا جائے تو اُن کے لاکھوں نہیں کروڑوں پرستار تھے اور اتنے سارے پرستاروں میں ایک پرستار میں بھی تھا۔ سچ پوچھیے تو میں نے کبهی نہیں سوچا تها کہ میں جنید جمشید کے اتنا قریب بهی جاسکوں گا۔ جب بچپن سے لڑکپن کی جانب بڑھا تو جنید بھائی کی سریلی آواز کا دور تها، اسکول کے زمانے میں جس طرح دیگر دوست اُن کے دیوانے تهے اُسی طرح میں بهی دیوانہ تها۔
مشروب کے ایک برانڈ کا گانا تقریباً ان کے آخری گانوں میں سے تها،
دل مانگے دل مانگے مانگے،
ایسے باندهیں پیار کے دهاگے،
ایک ہیں پاکستانی سارے،
مل جل کر ہم جائیں آگے
اس گانے کی کیسٹ میرے اسکول بیگ میں ہوتی تهی، یہ جنید بهائی کے عروج کا زمانہ تها، مگر اچانک ہی خبر آئی کہ جنید جمشید نے گانا چهوڑ دیا۔ اس خبر نے اس زمانے کی نئی ابهرتی نسلوں کو بالکل اسی طرح دم بخود کردیا تها، جس طرح آج ان کی ناگہانی موت نے کیا۔ اس وقت کوئی بهی یہ نہیں سوچ سکتا تها کہ جنید جمشید گانا چهوڑ سکتے ہیں۔ جہاں جنید جمشید کے اِس فیصلے نے نوجوانوں کی اکثریت کو اداس کردیا تھا، وہیں اِس فیصلے کے بعد خود اُن پر بهی بڑے سخت حالات اور آزمائیشیں آئیں اور ایک وقت ایسا بهی آیا کہ لوگوں نے سمجها اب جنید کا زمانہ ختم، عموماً جیسا دوسرے شوبز کے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے کہ آف فیلڈ ہوئے تو زمانہ بهلا دیتا ہے۔
مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جنید جمشید کے ساتھ ایسا نہیں ہوا، وہ جنید جمشید کے بعد جے جے بن کر ابهرے اور پهر چها گئے، لیکن اب کی بار مقبولیت کی وجہ موسیقی نہیں بلکہ دین کی تبلیغ، نعت خوانی اور کپڑے کا کاروبار تھا۔ اگر اُن کے بُرے حالات میں میری اُن سے ملاقات اور دوستی ہوئی ہوتی تو شاید میں اِس قدر خود کو خوش نصیب نہ سمجھتا لیکن میں اُن سے اُس وقت ملا جب جنید جمشید ایک بار پھر مقبولیت کی سیڑھیاں تیزی سے چڑھ رہے تھے۔ مجهے یقین ہی نہیں تها ایک دن میں اپنے سامنے کهڑے جنید بهائی کو ان کا گانا ’’دل مانگے دل مانگے مانگے‘‘ یاد دلا رہا ہوں گا، اور ان کو یاد نہیں آرہا ہو گا۔ وہ کچھ الجھن میں تهے کیونکہ انہوں نے دل مانگے کے دو گانے گائے تهے، اور جب اُن کی مشکل میں مزید اضافہ ہوا تو میں نے انہیں اس کے بول یاد کرانے کی کوشش کی،
حق تلفی کا سب کو گلا ہے
کیا محنت کا یہی صلا ہے
ظلم، جبر، غربت، افلاس
مایوسی ہے چاروں پاس
کیا جینا غیروں کے سہارے
قوم کی غیرت کو للکارے
بدلے طریقے بدلے طور
دل مانگے دل مانگے اور
جنید بهائی یہ سنتے حیران ہوگئے کہ یہ کہاں سے رٹا ہوا ہے، مجهے تو یاد ہی نہیں تها۔ بہت خوش ہوئے پهر کہنے لگے کہ یار اس کی شاعری بڑی پاور فل ہے اس کو دوبارہ ریکارڈ کرتے ہیں اپنے طریقے سے، میں نے کہا صرف یہی نہیں بلکہ اس زمانے کے 6، 5 ملی نغمے ملا کر ایک مکس ٹریک بنائیں گے۔ یہ سنتے ہی وہ ایسے جذباتی ہوگئے کہ جیسے بس ابهی ریکارڈ کرلیں گے۔ جنید بهائی کبهی بهی اپنے مداحوں کی اس نسل کو نہیں بهولے جو ان کے عروج کے وقت کانسرٹ کے دوران پہلی صفوں میں نظر آیا کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ اپنے منفرد اسٹائل میں یہ کہتے تهے کہ یار میں اپنے میوزک کے دور کے فینز کو چهوڑ نہیں سکتا، کل کو مجھ سے ہی پوچھ ہوگی کہ خود تو دین کا بیڑا اٹها کر نکل گیا اور پیچهے پوری قوم کو میوزک پر لگا آیا۔ اسی لئے وہ اکثر و بیشتر حمد و نعت ریکارڈ کراتے رہتے تهے، اور جہاں موقع ملتا سناتے بهی رہتے۔ میوزک چهوڑنے کے بعد کبهی بهی انہوں نے اپنی حمد و نعت یا ترانوں کا معاوضہ نہیں لیا۔
انہوں نے موسیقی تو چهوڑ دی مگر نوجوان نسل کو اپنا ایک مہذب ٹرینڈ بهی دیا چاہے وہ حمد ونعت ہوں، ترانے ہوں یا پوشاک۔ میں نے جنید بهائی سے بنوریہ میڈیا کے تحت ایک نئے پراجیکٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے نعتیں حمدیں تو بہت ریکارڈ کی ہیں مگر ملی نغمیں اب تک ریکارڈ نہیں کئے۔ کہنے لگے لوگ ملی نغمے میوزک کے بغیر سنتے نہیں، میں نے کہا ہم کریں گے۔ پہلی بار ہم مدارس طبقے سے ایک پروفیشنل کوالٹی کا ملی نغمہ ریلیز کریں گے تو شاید معاشرے سے نفرت و فرقہ واریت کے خاتمے میں کوئی مدد ہوجائے، جس پر جنید بهائی فوراً تیار ہوگئے۔ کہا شروع ہوجاؤ میں اس پراجیکٹ کے لئے تیار ہوں۔
یہ وہ وقت تها جب اُن پر گستاخ رسول ﷺ کے فتوے لگ رہے تهے، قتل کی دهمکیاں مل رہی تهیں، رمضان کا مہینہ تها، تو رمضان ٹرانسمیشن بهی کررہے تهے۔
جس اسٹوڈیو پر اُن کی نشریات جاری تھیں، دھمکیوں کے سبب انہوں نے اُسی اسٹوڈیو میں ہی اہل خانہ کے ہمراہ رہنے کو ترجیح دی۔ سیکیورٹی سخت تهی اور ان کو باہر بهی نکلنے نہیں دیا جارہا تها۔ ’پاک وطن‘ پراجیکٹ کی آڈیو ریکارڈنگ کے لئے جنید بهائی نے کہا کہ چاند رات کو اسٹوڈیو کا ٹائم لے لو میں ٹرانسمیشن سے فارغ بهی ہوجاؤں گا تو سکون سے ریکارڈنگ کر لیں گے۔ جنید بھائی چاند رات کو فارغ ہوکر رات 1 بجے اسٹوڈیو پہنچے، میں نے کہا ابھی تو بہت تاخیر ہو گئی ہے، صبح عید بھی ہے تو عید کے بعد کر لیتے ہیں۔ میری آفر پر انہوں نے مذاقاً کہا کہ ارے کر لے ابهی! پهر جنید جمشید ہاتھ آئے یا نا آئے۔ بہرکیف گن مین اور ڈرائیور کو عید کا خرچہ دیا اور کہا گهر جاؤ، صبح عید ہے تیاریاں کرو میں ریکارڈنگ سے فارغ ہوکر خود گهر چلا جاؤں گا۔
اُن کا یہ فیصلہ تمام ہی لوگوں کے لیے حیران کن تھا کیونکہ اُن کی زندگی کو خطرہ جو تھا۔ اُن کو اِس فیصلے کی واپسی کے لیے ہزار سمجهایا مگر انہوں نے گارڈ اور ڈرائیور کو بهجوا دیا، اور پهر کہنے لگے لاو اب بتاو کیا ریکارڈ کرنا ہے؟ قارئین آپ حیران ہوں گے کہ ہم نے بوقت ریکارڈنگ جنید بهائی کو بتایا کہ ہم استاد امانت علی خان کا ’اے وطن پاک وطن‘ ریکارڈ کررہے ہیں۔ یہ سننے کی دیر تھی کہ وہ تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے کہ ایک تو میری کوئی تیاری نہیں اوپر سے تم لوگوں نے نغمہ بهی ایسا منتخب کیا جس کو گانے سے بڑے سے بڑے گائیک بهی بهاگتے نظر آتے ہیں۔ بہرکیف انہوں نے ریکارڈنگ کروائی اور چاند رات کو 4 بجے فارغ ہوئے اور شہر کے خراب حالات میں اکیلے گاڑی ڈرائیو کرکے گهر گئے، وہ بڑے نڈر قسم کے انسان تهے اور ڈر خوف نام کی کوئی چیز کم از کم میں نے تو اُن کے قریب بھٹکتے نہیں دیکھی۔
سلمان ربانی
کا تصور کرنا اتنا ہی مشکل ثابت ہورہا ہے۔ اگر مبالغہ نہ کیا جائے تو اُن کے لاکھوں نہیں کروڑوں پرستار تھے اور اتنے سارے پرستاروں میں ایک پرستار میں بھی تھا۔ سچ پوچھیے تو میں نے کبهی نہیں سوچا تها کہ میں جنید جمشید کے اتنا قریب بهی جاسکوں گا۔ جب بچپن سے لڑکپن کی جانب بڑھا تو جنید بھائی کی سریلی آواز کا دور تها، اسکول کے زمانے میں جس طرح دیگر دوست اُن کے دیوانے تهے اُسی طرح میں بهی دیوانہ تها۔
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments