گذشتہ دنوں جان شیر خان سے ان کے گھر پر ملاقات ہوئی وہ ویسے نہیں تھے
جو بیس سال قبل تھے ان کا رویہ اب تبدیل ہو چکا تھا، مد مقابل کھلاڑی سے اسکواش کورٹ میں ہر اعزاز چھین لینے والا جان شیر خان اب ایک ایسی بیماری سے لڑ رہا ہے جس نے بظاہر اسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا لیکن عمر کے ڈھلتے سائے اس کے چہرے سے عیاں ہونے لگے تھے۔ میں نے جان شیر خان سے کئی بار کہا کہ اس پر کتاب لکھنا چاہتا ہوں ،لکھنے کا کوئی مسئلہ نہیں مگر یہ آپ بیتی ہو تو دنیا جان شیر خان کے بارے میں اس کی زبانی بہت کچھ جان سکے گی مگر جان شیر نجانے کیوں ایسا نہیں کرنا چاہتا اگرچہ اب میں نے فیصلہ تو کر لیا ہے کہ بہت جلد اس عظیم کھلاڑی سے متعلق کتاب لکھوں گا مگر اس میں بہت سی باتیں تشنہ رہ جائیں گی ۔
جان شیر کے فرزند ایاز شیر خان اپنے والد کی کامیابیوں کو زندہ رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں میں نے انھیں بھی چند سوالات لکھ کر دیے لیکن جان شیر خان اسے بھی وقت نہیں دے پا رہے ۔ مختصر سی ملاقات کے دوران میں جان شیر کو محض دیکھتا ہی رہا اور پھر ایک ایک کر کے اس کی کامیابیاں آنکھوں کے سامنے آنے لگیں۔ وہ جب اسکواش کورٹ میں بڑی شان سے داخل ہوا کرتا اور دیکھتے ہی دیکھتے مد مقابل کو زیر کر لیتا ،اس نے دنیا کے ہر اس کھلاڑی کو شکست دی جس نے اسکواش کھیل پر حکمرانی کا خواب دیکھا ،جان شیر خان نے ہر اس کھلاڑی سے بدلہ لیا جس نے کبھی بھی کسی وقت کسی پاکستانی کھلاڑی کے خلاف کامیابی حاصل کی،اس نے دنیا کے ہر اس ملک میں جہاں اسکواش کھیلی یا جانی جاتی ہے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرایا۔
جان شیر خان نے لا تعداد ٹورنامنٹ کھیلے ،بے شمار کامیابیاں حاصل کیں اور پھر اسے بہت سی مزاحمتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔ مجھے پشاور کے آرمی اسکواش کمپلیکس میں کھیلا گیا وہ میچ یاد ہے جب وہ جہانگیر خان کے مد مقابل تھا ،جب وہ پوائنٹ حاصل کرتا تو کورٹس میں خاموشی چھا جاتی اور جب جہانگیر خان کامیابی حاصل کرتا تو کورٹ شائقین کی تالیوں سے گونج اٹھتا اور پھر جان شیر خان اور خوب کھیلنا شروع کرتا اس کے فورہینڈ اسٹروکس پر جب گیند سامنے دیوار سے ٹکراتی تو پٹاخ کی آواز دل و دماغ میں ارتعاش پیدا کر دیتی ۔ جب وہ فاتح بن کر کورٹ سے باہر نکلا توداد نہ دینے والے ان شائقین کو دیکھ کر مسکرایا اور پھر نظریں نیچی کر لیں ۔اب شائقین کے پاس کوئی جواز باقی نہ بچا تھا تب تالیاں جان شیر کے لیے بجنا شروع ہوئیں اور پھر کافی دیر تک بجتی رہیں۔
میں جان شیر خان کے چہرے پر نظریں جمائے چند لمحوں کے لیے پھر ماضی میں لوٹ گیا کہ جان شیر خان زیادہ مقبولیت کیوں حاصل نہیں کر سکا اس کا جواب قطعی مشکل نہیں! اسے اس کا حق چاہیے تھا جو مل نہ پا رہا تھا وہ پشاور میں قیام پذیر تھا اور اس کی رسائی متعلقہ افراد تک بسا اوقات نا ممکن ہوا کرتی تھی لہٰذا اس نے اپنا ہر حق چھین کر حاصل کیا ۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ پشاور اور اس وقت کا صوبہ سرحد شاید اس کے لیے بد قسمتی کا سبب بن گیا تھا اور ایسا آج بھی ہے بالکل ویسا ہی جس طرح ماضی میں جان شیر کو نظر انداز کیا جاتا تھا آج بھی قوم پرستی اس صوبے کی قابل فخر شخصیات ،ملک و قوم کی خدمت کرنے والوں بلکہ عوام کے لیے وبال جان بن چکی ہے یہاں کے حکمران ،یہاں کے بیورو کریٹس، یہاں کے سرمایہ کار سبھی اس صوبے کو وقتی طور پر استعمال کر کے یہاں کے محب وطن لوگوں کو بے بس و بے یارو مددگار چھوڑنا اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں۔
مگر جان شیر نے ٹھیک کیا ،کسی بھی مخالفت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے ادارے پی آئی اے،پاکستان اسکواش فیڈریشن اور سپانسرز سبھی کو جوتے کی نوک پر رکھا ورنہ آج شاید اس کا نام لیو اکوئی نہ ہوتا ۔ میں نے جان شیر سے کہا کہ ماضی یاد آتا ہے تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی !وہ جان گیا کہ میں کوئی شرارت کرنے جا رہا تھا، مگر کہنے لگا بہت خوش ہوں اللہ تعالیٰ نے ہر خوشی سے نوازا ہے مجھے ساری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرنے کا اعزاز ملا ،ریکارڈز کی دنیا میں جہاں اس کا نام درج ہے سامنے پاکستان کا نام بھی ہے، وہ جو بھی ہے اس ملک کی وجہ سے ہے۔
اس کی کامیابیاں اس کی زندگی کا سرمایہ ہیں،اس کی اولاد اس کے مستقبل کا یقین ہے۔ اسے کبھی اپنے ماضی پر ملا ل نہیں ہوا، ذاتی زندگی کو موضوع بحث بنائے بناء اس کا کھیل ناقدین کے ہر سوال کا بیباک جواب رہا اور یہ اعزاز و اکرام ہر کسی کے حصے میں کم ہی آتا ہے۔ آج اسکواش میں ناکامیوں پر جان شیر خان ضرور مایوس تھا کہ پاکستانی کھلاڑیوں میں وہ جذبہ اور لگن نہیں جو ماضی میں جہانگیر خان اور ان میں ہوا کرتی تھی۔ ان کے خیال میں اپ سیٹ کامیابیاں ہی کسی کھیل کی ترقی کا باعث بنتی ہیں اور جب پاکستانی کھلاڑیوں نے جیتنا شروع کر دیا تو پھر وہ دن دور نہیں جب سارے عالمی اعزازات ان کے قدموں میں ہوں گے انھیں یہ یقین ضرور تھا کہ پاکستانی کھلاڑی ایک دن ضرور جیتیں گے (ان کی خواہش پاکستانی جونئیر کھلاڑیوں نے پولینڈ میں منعقدہ جونئیر عالمی کپ میں فتح حاصل کر کے پوری کر دی ،پاکستان نے آٹھ برسوں بعد یہ گراں قدر اعزاز اپنے نام کیا)
جان شیر خان بہت سی باتیں کرنا چاہتا تھا لیکن مجھے محسوس ہوا کہ وہ زیادہ دیر بات چیت نہیں کر سکے گا ۔ اس کا جذبہ پاکستان کے 70 ویں یوم آزادی کے موقع پر ویسا ہی تھا جب وہ اسکواش کورٹس کے اندر مد مقابل کو لمحوں میں شکست سے دوچار کر دیا کرتا تھا۔ اس کے چہرے پر وہی مسکراہٹ تھی جو ہر میچ میں فتح کے بعد ہوا کرتی تھی اور بیماری کے خلاف وہی ہمت بھی جو ہمیشہ حق نہ دینے والوں سے حق چھین لینے کی تھی۔ جان شیر خان پاکستان کی عزت و افتخار ہے اور اس کی کامیابیوں کو جب بھی تذکرہ ہو گا پاکستان کا بچہ بچہ اس ان پر فخر کرے گا ،ان کی عظیم کامیابیاں نئی نسل خاص طور پر اسکواش کھیلنے اور جیت کا عزم رکھنے والوں کے لیے ہمیشہ ہمیشہ باعث تقلید رہیں گی۔
امجد عزیز ملک
جو بیس سال قبل تھے ان کا رویہ اب تبدیل ہو چکا تھا، مد مقابل کھلاڑی سے اسکواش کورٹ میں ہر اعزاز چھین لینے والا جان شیر خان اب ایک ایسی بیماری سے لڑ رہا ہے جس نے بظاہر اسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا لیکن عمر کے ڈھلتے سائے اس کے چہرے سے عیاں ہونے لگے تھے۔ میں نے جان شیر خان سے کئی بار کہا کہ اس پر کتاب لکھنا چاہتا ہوں ،لکھنے کا کوئی مسئلہ نہیں مگر یہ آپ بیتی ہو تو دنیا جان شیر خان کے بارے میں اس کی زبانی بہت کچھ جان سکے گی مگر جان شیر نجانے کیوں ایسا نہیں کرنا چاہتا اگرچہ اب میں نے فیصلہ تو کر لیا ہے کہ بہت جلد اس عظیم کھلاڑی سے متعلق کتاب لکھوں گا مگر اس میں بہت سی باتیں تشنہ رہ جائیں گی ۔
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments